رافضیت کو پہچاننا اس دور کی اشد ضرورت ہے۔


 رافضیت کو پہچاننا اس دور کی اشد ضرورت ہے۔


<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-9470984359717753"
     crossorigin="anonymous"></script>


 اہل بیت سے مراد پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے۔ اہل سنت اور شیعہ دونوں کے نزدیک اہل بیت کی اہمیت اور احترام مسلم ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں۔ جبکہ شیعہ حضرات کے نزدیک اہل بیت میں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اور حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ ویکیپیڈیا کے مطابق 

اہل بیت کا مقام و مرتبہ قرآن و سنت میں بہت بلند ہے اور ان سے محبت اور عقیدت رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ 

اہل بیت کی تعریف:

ازواج مطہرات:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں اہل بیت میں شامل ہیں۔ 

حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین:

یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اہل بیت میں خاص مقام حاصل ہے۔ ف 

بنو ہاشم:

بعض علماء کے نزدیک بنو ہاشم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان) کو بھی اہل بیت میں شامل کیا جاتا ہے۔ ویکیپیڈیا کے مطابق 

اہل بیت سے محبت کی اہمیت:

اہل بیت سے محبت کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ دائرۃ المعارف ویکیپیڈیا کے مطابق

اہل بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے۔

اہل بیت سے محبت کرنے والوں کو قیامت کے دن شفاعت نصیب ہوگی۔

 

 رافضیت کو پہچاننا اس دور کی اشد ضرورت ہے۔

یہ نہایت ضروری پوسٹ ہے اس کو پورا پڑھیے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

السلام علیکم 

> "فرقِ مراتب بے شمار

حق بدستِ حیدرِ کرّار

معاویہ بھی ہمارے سردار

طعن اُن پر کارِ فُجّار

رضی اللہ تعالی عنہما"

یہ اشعار کسی عام شاعر کے نہیں... بلکہ وہ امام کہلائے جنہوں نے عقائدِ اہلِ سنت کو برصغیر میں نئی روح عطا کی… جنہیں مجددِ اسلام کہا گیا… امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔

آئیے… ان اشعار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ یہ چند مصرعے کس طرح امت کو عدل، محبت، اور توازن کا سبق دیتے ہیں۔

پہلا مصرع: "فرقِ مراتب بے شمار"

اللہ تعالیٰ نے انبیاء، صحابہ، اہل بیت، اور اولیاء کو درجات عطا فرمائے… مگر یہ سب اللہ کے بندے ہیں… اور مراتب کا فرق خود قرآن سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

> "تِلْكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ"

(البقرہ: 253)

ترجمہ: "یہ رسول وہ ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی گئی"۔

تو اگر انبیاء کے درمیان مراتب کا فرق ہے… تو صحابہ میں بھی فرقِ مراتب فطری ہے۔

اعلی حضرت اس شعر میں واضح کرتے ہیں کہ:

ہر صحابی، صحابی ہونے کے ناطے عادل، معتبر، اور قابلِ احترام ہے،

لیکن ان کے مراتب یکساں نہیں ہیں۔

 دوسرا مصرع: "حق بدستِ حیدرِ کرّار"

یہاں اعلی حضرت حضرت علیؓ کا ذکر بڑے ادب اور فخر سے فرماتے ہیں کہ:

> حق ان کے ہاتھ میں تھا، ان کی تلوار حق پر تھی۔

یہ دراصل اس حدیث کی طرف اشارہ ہے:

> "علی مع الحق، والحق مع علی"

یعنی "علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے".

حضرت علیؓ کا مقام بے شک بلند ہے، وہ شیرِ خدا ہیں، خلیفۂ راشد ہیں، دامادِ رسول ﷺ ہیں… اور غزوۂ خیبر کے ہیرو۔

لیکن… امام احمد رضا اسی شعر میں اعتدال برقرار رکھتے ہیں… اور اگلے مصرع میں وہ بات کہتے ہیں… جو خالص اہلِ سنت کا امتیاز ہے۔

تیسرا مصرع: "معاویہ بھی ہمارے سردار"

کیا خوب توازن ہے!

اعلی حضرت، جنہوں نے اہل بیت سے بےپناہ محبت کی، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ:

> حضرت معاویہؓ بھی ہمارے سردار ہیں۔

وہ بھی صحابی ہیں، وہ بھی کاتبِ وحی ہیں، حضرت امیر معاویہ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنھا زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ 

یہی عقیدہ اہلِ سنت ہے۔

ہم حضرت علیؓ سے محبت کرتے ہیں، مگر حضرت معاویہؓ سے بغض نہیں رکھتے۔

حضرت حسنؓ نے جب خلافت حضرت معاویہؓ کے حوالے کی، تو دراصل اہلِ سنت کا اتحاد کا راستہ وہیں سے شروع ہوتا ہے۔

چوتھا مصرع: "طعن اُن پر کارِ فُجّار"

یہاں اعلی حضرت بہت سخت الفاظ میں تنبیہ فرماتے ہیں:

> جو حضرت معاویہؓ پر زبان درازی کرے…

جو ان کے ایمان، عدل، یا نیت پر شک کرے…

وہ فُجّار یعنی فاسق و فاجر کے کام کر رہا ہے۔

یہ دراصل قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے:

> "وَالسَّابِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَاجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم…"

ترجمہ: "پہلے ایمان لانے والے مہاجرین و انصار اور ان کے بعد آنے والے جو ان کی پیروی کریں… اللہ ان سب سے راضی ہو گیا"

تو جب اللہ راضی ہو چکا… ہم کون ہوتے ہیں طعن کرنے والے؟

 آخری الفاظ: "رضی اللہ تعالی عنہما"

یہ اشعار ختم ہوتے ہیں ان مبارک کلمات پر…

> "رضی اللہ عنہما" — اللہ دونوں سے راضی ہو!

یہی اہلِ سنت کی پہچان ہے:

حضرت علیؓ سے عقیدت

حضرت معاویہؓ سے محبت

اور سب صحابہ کے لیے دعائے رضائے الٰہی

دوستو!

یہ اشعار صرف نظم نہیں…

یہ ایک مکمل عقیدہ، ایک مکتبِ فکر، اور ایک روشن راستہ ہیں… جو امام احمد رضا نے ہمیں عطا فرمایا۔

یہ اشعار فرقہ واریت نہیں، بلکہ امت کو جوڑنے والا پیغام ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اہل سنت متحد ہوں…

تو ہمیں اعلی حضرت کی اس سوچ، اس اعتدال، اور اس حکمت کو اپنانا ہوگا۔

"محبت علی سے، ادب معاویہ کا – یہی ہے پیغامِ اہلِ سنت!"

آج اہلِ سنت کو دو محاذوں پر دفاعی پوزیشن پر لایا جا رہا ہے:

1. ایک طرف نجدی فکر، جو صحابہ کرام کی تنقیص اہلِ بیت کے عنوان سے کرتی ہے؛

2. اور دوسری طرف رافضی فکر، جو محبتِ اہلِ بیت کے نام پر صحابہ کرام بالخصوص حضرت معاویہؓ، حضرت عمرؓ اور دیگر جلیل القدر ہستیوں پر طعن کرتی ہے۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کلام اس معاملے میں ایک قلعہ ہے – جو اہل بیت اور صحابہ دونوں کے ساتھ مکمل عدل و انصاف کرتا ہے۔

 اہل بیت کے نام پر صحابہ پر حملے!

آج کے دور میں ایک نیا فتنہ سر اٹھا رہا ہے…

ایسے لوگ، جو اہل بیت کی محبت کے نام پر حضرت معاویہؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوبکرؓ، اور دیگر صحابہ کرامؓ پر لعن و طعن کر رہے ہیں…

یہی تو رافضیت ہے — جس سے امام اہل سنت، اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے روکا۔

آپ فرماتے ہیں:

> ❝ جو صحابہ پر طعن کرے، وہ فاسق ہے… اگر طعن ایمان پر ہو تو کافر ہے ❞

(فتاویٰ رضویہ، جلد 9) 

آج سوشل میڈیا پر بیٹھ کر کچھ لوگ اہل بیت کی محبت کا نعرہ لگا کر، حضرت معاویہؓ جیسے جلیل القدر صحابی پر زبان درازی کرتے ہیں… حالانکہ:

وہ کاتبِ وحی ہیں

وہ زوجہ رسول ﷺ حضرت ام حبیبہ ۔رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی ہیں

ان کے حق میں صحابہ کے اجماعی اقوال موجود ہیں

امام طحاوی فرماتے ہیں:

> "ہم حضرت معاویہؓ کے بارے میں نیکی کے سوا کچھ نہیں کہتے، اور ان پر طعن کرنا منع ہے"۔

 اعلیٰ حضرت کا عدل: نہ رافضیت، نہ ناصبیت

اعلی حضرت نے دو انتہاؤں کے درمیان اہل سنت کو سنہری راستہ دیا:

نہ ناصبیت کہ جو اہل بیت کو کم تر سمجھے

نہ رافضیت کہ جو صحابہ کو معاذ اللہ گالیاں دے۔

بلکہ فرمایا:

> "ہم وہ ہیں جو حسینؓ کو جگر کا ٹکڑا سمجھتے ہیں

اور یزید کو پلید سمجھتے ہیں

مگر معاویہؓ کو سردار اور علیؓ کو حق پر مانتے ہیں"۔


ہماری نسلوں کو رافضیت کے اس خوشنما زہر سے بچانا ہوگا۔

یہ وہی فکر ہے جو:

وحدتِ صحابہ کو توڑتی ہے

فتنہ و انتشار کو جنم دیتی ہے

اور اہل سنت کے معتدل عقیدے کو مٹانے کی سازش ہے۔

لہٰذا دوستو!

"فرقِ مراتب بے شمار…" سے لے کر "رضی اللہ عنہما" تک اعلی حضرت کا ہر مصرعہ ایک قلعہ ہے…

ایک تلوار ہے…

جو اس فتنے کے منہ پر طمانچہ ہے!

اہل بیت سے بغض رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

جادو کرنے والی عورتیں ایک بار یہ واقعہ پڑھ لیں

وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں،

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ