دشمنانِ امام حسینؑ نے سروں کو نیزے پر کیوں بلند کیا؟



دشمنانِ امام حسینؑ نے سروں کو نیزے پر کیوں بلند کیا؟



<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-9470984359717753"
     crossorigin="anonymous"></script>




دشمنانِ امام حسینؑ نے سروں کو نیزے پر کیوں بلند کیا؟

تاریخی منابع کے مطابق ابن زیاد نے، ایک دن یا بعض روایات کے مطابق چند دن تک، شہداء کے سروں کو کوفہ کی گلیوں اور محلّوں میں پھرانے کے بعد یزید کے حکم پر انہیں شام روانہ کر دیا۔ اس کے بعد اسیرانِ کربلا کو "مخضّر بن ثعلبہ عائذی" اور "شمر بن ذی الجوشن" کی نگرانی میں ۱۹ محرم کو یزید کے دربار کی طرف بھیجا گیا۔

سر کیوں کاٹے گئے؟

واقعۂ کربلا میں شہداء کے سروں، خصوصاً امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزے پر بلند کرنے کا مقصد صرف قتل نہیں تھا بلکہ اس عمل کو دشمنوں نے ایک ظالمانہ تماشے اور نفسیاتی دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا۔

یہ اقدام چند اہم مقاصد کے لیے کیا گیا:

دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے،امام حسینؑ کی تحریک کو تحقیر اور کمزور دکھانے کے لیے،اپنی ظاہری فتح کا اعلان کرنے کے لیے،مخالفین کو خبردار کرنے کے لیے کہ جو بھی حکومت وقت کے خلاف اٹھے گا، اس کا انجام بھی ایسا ہوگا۔ یعنی یہ عمل محض جسمانی قتل نہ تھا بلکہ ایک علامتی پیغام تھا کہ طاقت، اقتدار اور انتقام کا کھیل یہاں کس قدر بےرحمانہ ہو سکتا ہے۔

شیخ مفید اور سید ابن طاؤوس کے مطابق: عمر بن سعد نے عصرِ عاشورہ کے بعد امام حسین علیہ السلام کا سر خولی بن یزید اصبحی (قبیلہ حمیر سے) اور حمید بن مسلم ازدی کے ساتھ ابن زیاد کے پاس کوفہ بھیجا۔ وہ رات کو کوفہ پہنچے تو قصر کا دروازہ بند تھا، اس لیے خولی سرِ مبارک کو اپنے گھر لے گیا اور اسے اپنے چولہے کے نیچے چھپا دیا۔ اس کی بیوی نوار بنت مالک حضرمی نے پوچھا: تم کیا لے کر آئے ہو؟ خولی نے جواب دیا: ایسی چیز لایا ہوں جس سے ہمیشہ کے لیے مالدار ہو جاؤں گا؛ یہ حسینؑ کا سر ہے جو اب تمہارے گھر میں ہے! اس کی بیوی نے نفرت سے کہا: افسوس تم پر! لوگ سونا چاندی لاتے ہیں اور تم رسول خدا کے بیٹے کا سر لے آئے ہو؟!

بلاذری نے لکھا ہے کہ گیارہویں محرم کے دن باقی شہداء کے سر بھی کاٹے گئے، اور جب عمر بن سعد نے اہلِ بیتؑ کو کوفہ کی طرف روانہ کیا، تو ان سروں کو نیزوں پر بلند کرکے ساتھ لے جایا گیا۔

معجزہ: سرِ مبارک امام حسین علیہ السلام کا قرآن کی تلاوت کرنا

قرآن خوانی کا یہ عظیم معجزہ کہ امام حسینؑ کا سرِ مطہر نیزے پر قرآن پڑھ رہا تھا، شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر کے علماء کے ہاں ثابت شدہ ہے اور معتبر سند کے ساتھ روایت ہوا ہے۔

ابن شہر آشوب مازندرانی نے اپنی کتاب مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کے متعدد معجزات میں سے ایک "مشہد الرأس" یعنی وہ مقامات ہیں جہاں سرِ مبارک کو لے جایا گیا۔ یہ جگہیں کربلا سے لے کر عسقلان، موصل، نصیبین، حماہ، حمص اور دمشق تک شامل ہیں، جن میں یہ کرامتیں ظاہر ہوئیں۔

۱. خولی کی پہلی بیوی کا مشاہدہ

خولی کی پہلی بیوی جو ایک باایمان عورت تھی، نے رات کے وقت دیکھا کہ امام حسینؑ کے سرِ مبارک سے ایک نور آسمان کی طرف بلند ہو رہا ہے۔ جب وہ قریب گئی تو اس نے سنا کہ امامؑ کا سر قرآن کی تلاوت کر رہا ہے، یہاں تک کہ صبح کا وقت ہو گیا۔

آخری آیت جو اس نے سنی، یہ تھی:"وَ سَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ"(یعنی: عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹائے جائیں گے)

اس رات کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ آخرکار خولی نے اپنی ہی بیوی کو قتل کر دیا۔

۲. زید بن ارقم کی گواہی

زید بن ارقم کہتے ہیں:میں ایک بالاخانے میں بیٹھا تھا کہ امام حسینؑ کا سر مبارک نیزے پر میرے سامنے سے گزرا۔

جب وہ برابر میں آیا تو میں نے سنا کہ امامؑ یہ آیت پڑھ رہے تھے:"أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا"(یعنی: کیا تم نے گمان کیا کہ اصحابِ کہف اور رقیم ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے؟)

خدا کی قسم! میرا بدن کانپ اٹھا اور میں نے کہا: اے رسولِ خدا کے فرزند! آپ کا سر نیزے پر ہونا، یقیناً اصحابِ کہف سے زیادہ عجیب بات ہے۔

۳. ابومخنف کی روایت

ابومخنف، شعبی سے روایت کرتے ہیں:جب امام حسینؑ کا سرِ مبارک کوفہ کو زر فروشوں کی مارکیٹ میں لٹکایا گیا،تو سرِ مبارک نے کھنکارا اور سورہ کہف کی تلاوت شروع کی، یہاں تک کہ یہ آیت تلاوت فرمائی: "إِنَّهُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى"(یعنی: وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا)۔ یہ تلاوت ظالموں کی گمراہی میں مزید اضافہ کا سبب بنی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جب سرِ مبارک کو درخت پر لٹکایا گیا، تو یہ آیت بھی تلاوت فرمائی: "وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ"

دمشق میں بھی لوگوں نے سنا کہ امامؑ فرما رہے ہیں: "لا قوّة الا بالله" اور ایک اور آیت بھی سنی گئی: "أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا"

۴. سَلمہ بن کہیل کی شہادت

سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ انہوں نے خود سرِ مبارک کو نیزے پر یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا:"فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" (یعنی: اللہ ان سے تمہاری کفایت کرے گا اور وہ سب سننے اور جاننے والا ہے)

۵. حرث بن وکیدہ کا واقعہ

حرث بن وکیدہ کہتے ہیں: میں نے سنا کہ امام حسینؑ کا سرِ مبارک سورہ کہف کی تلاوت فرما رہا ہے۔ مجھے شک ہوا کہ یہ آواز سر سے آ رہی ہے یا کسی اور جگہ سے،تبھی اچانک سرِ مبارک خاموش ہوا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا:"اے حرث بن وکیدہ! کیا تم نہیں جانتے کہ ہم آئمہ زندہ ہیں، اور اپنے رب کے حضور رزق پاتے ہیں؟" یہ سن کر میں نے دل میں ارادہ کیا کہ سرِ مبارک کو چرا کر دفن کر دوں،تو امامؑ نے فرمایا: "اے ابن وکیدہ! تجھے اس کام کی اجازت نہیں۔ ان ظالموں کا میرا خون بہانا، میرے سر کو نیزے پر لے جانے سے زیادہ سنگین گناہ ہے۔ انہیں چھوڑ دو، ان کے لیے وہ وقت آنے والا ہے جب زنجیریں ان کی گردنوں میں ہوں گی، اور انہیں گھسیٹا جائے گا۔" “اذ الاغلال فی أعناقهم و السلاسل یسحبون( غافر.۷۱)

۶. مسجد الحنانہ

ابن شہر آشوب کے مطابق: جب اسیران کربلا کا قافلہ ۱۲ محرم کی رات کوفہ کے کنارے پہنچا تو شہر میں داخل نہ ہوا۔ ابن زیاد چاہتا تھا کہ قافلہ ہتھیاروں اور فوج کے ساتھ بھرپور نمائشی انداز میں شہر میں داخل ہو۔ اس جگہ کو آج "مسجد الحنانہ" کہا جاتا ہے جو نجف کے شمال مشرق میں ہے۔

محدث قمی فرماتے ہیں کہ یہاں امام حسینؑ کا سرِ مبارک رکھا گیا تھا۔ اس جگہ کو "حنّانه" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب سر کو وہاں رکھا گیا تو زمین نے گریہ کیا اور قرآن کی آیات اور ذکر کی آواز سنائی دی۔

۷. ابن زیاد کا قاصد

ابن زیاد لعین نے زَحر بن قیس کو بلایا اور امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے سر یزید بن معاویہ کے پاس بھیجنے کا حکم دیا۔ زحر کے ساتھ ابوبرده بن عوف اور طارق بن ابی‌ظبیان بھی تھے۔

۸. دیرِ راہب کا واقعہ

قافلہ شام جاتے ہوئے ایک نصرانی راہب کے دیر (گرجا) پر رکا۔ امامؑ کا سر مبارک ایک صندوق میں رکھ کر دیر میں رکھا گیا۔ راہب نے اس سر سے آسمان کی طرف نور نکلتے دیکھا۔جب اس نے سچائی جانی تو راہب نے پیسے دے کر ایک رات کے لیے سر مانگا، اس نے سرِ مبارک کو مشک و گلاب سے دھویا، ساری رات سر پر رکھ کر روتا رہا۔ صبح ایمان لایا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ امام سجادؑ کی خدمت میں آیا، اور دشمنوں کے خلاف جنگ کی پیشکش کی، لیکن امامؑ نے فرمایا: "تم ایسا نہ کرو، اللہ خود ان سے انتقام لے گا۔"

۹. یہودی کا اسلام قبول کرنا

اسیرانِ اہل بیتؑ کا قافلہ جب شام کی طرف جا رہا تھا، تو راستے میں ایک یہودی شخص "یحیی حرّانی" ان سے ملا۔اس نے دیکھا کہ ایک سرِ مبارک کے لب ہل رہے ہیں۔ قریب جا کر سنا تو یہ آیت پڑھ رہا تھا: "وَ سَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ" اس نے پوچھا: یہ کس کا سر ہے؟ کہا گیا: یہ حسین بن علیؑ کا سر ہے، جن کی ماں حضرت فاطمہؑ بنت رسولؐ ہیں۔یہ منظر دیکھ کر وہ فوراً مسلمان ہو گیا۔

۱۰. منہال بن عمرو کی گواہی

منہال بن عمرو کہتے ہیں:میں نے دمشق میں امام حسینؑ کا سر نیزے پر دیکھا،جو سورہ کہف کی تلاوت فرما رہا تھا، یہاں تک کہ اس آیت تک پہنچا:"أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا"

پھر فرمایا:"اصحابِ کہف کا واقعہ عجیب ہے، مگر میرا قتل اور میرا سر نیزے پر ہونا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔"

۱۱. یزید اور سفیرِ روم

جب رومی سفیر نے امام حسینؑ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو دیکھا اور مسلمان ہو گیا، یزید نے اس کے قتل کا حکم دیا۔تب امام حسینؑ کا سر بلند آواز سے گویا ہوا:"لا حول و لا قوة الا بالله"

منابع:

ارشاد شیخ مفید (ره)

لهووف سید بن طاووس (ره)

مقتل الحسین علیه السلام سید عبدالرزاق مقرم (ره)

مناقب آل ابیطالب ابن شهر آشوب ر(ه)

انساب الاشراف احمدبن یحیی بلاذری

پایگاه اطلاع رسانی حوزه

Comments

Popular posts from this blog

جادو کرنے والی عورتیں ایک بار یہ واقعہ پڑھ لیں

وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں،

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ