حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-9470984359717753"
crossorigin="anonymous"></script>
ایک دن حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ اور دوسرے بزرگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت اوحد الدین کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ نے تمام بزرگوں سے اپنی اپنی کرامات دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا پھر حاضرین کے جواب کا انتظار کئے بغیر خود ہی اہل مجلس کو مخاطب کرکے فرمانے لگے یہاں کا حاکم میری بہت دل آزاری کرتا ہے
آج وہ چوگان کھیلنے کے لئے گیا ہوا ہے اب اﷲ ہی ہے کہ وہ حاکم صحیح و سلامت واپس آجائےابھی مجلس میں حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ کسی شخص نے باہر سے آکر اطلاع دی کہ وہ حاکم گھوڑے سے گر کر مرگیا مجلس میں موجود تمام بزرگ شیخ کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر حیران رہ گئے اس کے بعد دوسرے بزرگوں نے بھی اپنی اپنی کرامات کا اظہار کیا
آخر میں شیخ کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ نے حضرت فرید رحمتہ اﷲ علیہ سے کہا فرید الدین تم بھی اپنی کوئی کرامت دکھاو بڑا مشکل مرحلہ تھا بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ نے نہایت عجزوانکساری کے ساتھ عرض کیا میں تو ایک طالب علم ہوں اور بزرگوں سے کچھ سیکھنے اور ان کی خدمت کے لئے گھر سے نکلا ہوں بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہے مگر حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کے کسی عذر کو تسلیم نہیں کیا بالاخر بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ مجبور ہوگئے آپ نے آنکھیں بند کرلیں اور دل ہی دل میں خداوند ذوالجلال سے درخواست گزار ہوئے
اے اپنے بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے والے تجھ پر سب باطن و ظاہر روشن ہے تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا ایک گناہ گار بندہ ہوں مگر ان لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں جو بے شمار کمالات روحانی رکھتے ہیں میری ذات میں نہ کوئی کرامت پوشیدہ ہے اور نہ میں کرامت کے اظہار کو مناسب سمجھتا ہوں پھر بھی میرے سر سے ان کڑے لمحات کو ٹال دے اور مجھ بے ہنر کو ان حضرات کے سامنے سرخرو فرمادے جو اہل علم بھی ہیں اور اہل کمال بھی
ابھی بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے رب کے حضور دست بہ دعا تھے کہ یکایک تصورات کے پردے پر آپ کے پیرومرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اﷲ علیہ کا چہرہ مبارک روشن ہوگیا حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اﷲ علیہ فرمارہے تھے
بابا فرید آزردہ کیوں ہوتے ہو جس خدا نے تمہیں سلطان الہندرحمتہ اﷲ علیہ کے آستانہ عالیہ تک پہنچایا ہے وہی ہرحال میں تمہاری مشکل کشائی کرے گا ان بزرگوں سے کہو کہ اپنی اپنی آنکھیں بند کرلیں پھر انہیں تمہاری کرامت نظر آئے گی ان الفاظ کے ساتھ ہی حضرت قطب رحمتہ اﷲ علیہ کا پرنور چہرہ بابا فریدرحمتہ اﷲ علیہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا آپ نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں
شیخ اوحد الدین کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ نے بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا فرید خاموش کیوں ہو کیا ابھی اس منزل تک نہیں پہنچے بابا فرید الدین نے فرمایا منزل تو میری بہت دور ہے مگر آپ حضرات اپنی آنکھیں بند کرلیں پھر دیکھیں کہ خدا کیا ظاہر کرتا ہے شیخ کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ اور دوسرے بزرگوں نے اپنی اپنی آنکھیں بند کرلیں یکایک تمام بزرگوں نے دیکھا کہ وہ سیستان کے بجائے خانہ کعبہ میں موجود ہیں
خود بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ بھی ان درویشوں کے ساتھ بیت اﷲ میں موجود تھے کچھ دیر بعد جب تمام درویشوں نے آنکھیں کھولیں تو نظروں کے سامنے شیخ کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ کی خانقاہ تھی اور حاضرین مجلس خاموش بیٹھے نظر آرہے تھےحضرت شیخ اوحد الدین کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ نے بے اختیار ہوکر فرمایا فرید اس نوعمری میں تمہیں یہ اعلیٰ مقام مبارک ہو شیخ کرمانی رحمتہ اﷲ علیہ کے ساتھ دوسرے درویش بھی بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ کے روحانی تصرف کا اعتراف کررہے تھے
مگر بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے آپ کیسے بتاتے یہ سب کچھ کیا تھا کس کی دعاؤں کااثر تھا اور کس کے فضل و کرم کی کرشمہ سازی تھی اپنے پیر و مرشد کے یہ کمال دیکھ کے بے انتہا خوش تھے اللہ اللہ اللہ )
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر بارہویں صدی کے مسلمان مبلغ اور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کو قرون وسطی کے سب سے ممتاز اور قابل احترام صوفیا میں سے ایک کہا گیا ہے۔ آپکا مزار پاک پتن، پاکستان میں واقع ہے۔
عظیم صوفی بزرگ اور شاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔[2] آپ کی ولادت 1173ء بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بمطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں۔ بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔[3] آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کی پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔[4] کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔ کچھ روایات کے مُطابق آپ کا سلسلہ خلیفہ دوم حضرت عُمربن خطاب کے ساتھ جا ملتا ہے اور عزیز الدین اور نجیب الدین آپ کے دو بھائی تھے۔[5] آپ کی والدہ ماجدہ قُرسم خاتون نے پہلی بار بابا فریدؒ کو نماز پڑھنے کی تلقین کی تو کچھ اِس طرح سے سمجھایا۔ کہ، جب چھوٹے بچے اللہ تعالیٰ کی نماز ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں شکر کا انعام دیتے ہیں اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دوسرے بڑے اور مزید انعامات دیے جاتے ہیں۔ بابا فرید ؒ جب نمازپڑھتے۔ تو قرسم خاتون چپکے سے ان کے مصلے کے نیچے شکر کی پڑیاں رکھ دیتیں اور بابا فرید ؒ وہ شکر کی پڑیاں انعام میں پا کر بہت خوش ہوتے، یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ،، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قرسم خاتون شکرکی پڑیاں رکھنا بھول گئیں۔ تو اگلے دن اضطراب سے پوچھا کہ اے فرید الدین مسعود کیا آ پکو کل شکر کی پڑیاں مل گئی تھیں؟ تو بابا فرید نے ہاں میں جواب دیا! تو قرسم خاتون نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا کہ انکی لاج رہ گئی۔ اور اس بات پر خوشی بھی ہوئی کہ اللہ عزوجل کی طرف سے انعام دیا گیا تب انہوں نے بابا فریدؒ سے کہا کہ اے فرید الدین مسعود آپ تو واقعی گنج شکر ہیں۔
بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔ اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔
مرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور قطب الدین بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ اور حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرشد تھے۔ عظیم صوفی بزرگ تھے جنہوں نے جاگیر ہونے کے باوجود اجودھن (پاکپتن) جو اس وقت کفرستان تھا، قبرستان میں اگنے والی جھاڑی (کری) سے ڈیلے حاصل کر کے پانی میں ابال کر کھاتے لیکن کبھی کسی سے مستعار شے لے کر نہ کھائی۔ انہوں نے دیگر علما کرام، صوفیا کرام، مشائخ اور درویشوں کی طرح محبت، بھائی چارے، امن و امان اور باہمی میل جول کا درس دیا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے خلفاء میں حضرت مولانا بدر الدین اسحاق ،خواجہ نظام الدین اولیائ، حضرت علی احمد کلیر صابری شامل ہیں۔[6]
کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشین ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔ شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں :
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگئے، پلے سب کجھ پاء
(فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو)۔
پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔ بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔
ان کی شاعری میں فارسی، عربی، سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ پنجابی شاعری کے پہلے شاعر ہیں۔
حضرت فرید الدین کے ہاں قوالی سننے کا رواج تھا لیکن آپ کے شاگرد حضرت نظام الدین اولیاء دہلی کے ہاں اس چیز کی ممانعت تھی اور اسے اچھا نہ سمجھا جاتا تھا۔
حامد بن فـضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔
پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں بھی مذہب کا ٹھیکیدار ’قاضی‘ موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو آزار پہنچاتے تھے لیکن بابا فرید کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔ قاضی کو اس پر بھی چین نہ آیا اور اس نے ملتان کے علما کو اطلاع دی اور سوال کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص جو اہلِ علم ہے خود کو درویش کہلوائے، ہمیشہ مسجد میں رہے اور وہاں گانا سنے اور رقص کرے۔ جب ان علما نے بھی کچھ نہ کیا تو قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ بابا فرید کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا۔
اس مشکلات کے باوجود بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ (میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔ )
بابا فرید کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں فریدا خالق خلق میں، خلق وسے رب مانہہ مندا کس نوں آکھیے، جاں تس بن کوئی نانہہ (فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے)۔ فریدا خاک نہ نندیے خاکو جیڈ نہ کوئے جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں اپر ہوئے (فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاؤں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے)۔
5 محرم الحرام 1265ء سن عیسوی بمطابق 666ھ 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا مزار شہنشاہ محمد بن تغلق نے تعمیر کروایا جو آپ کے مرید تھے انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر (دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہے گا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے)۔ حضور بابا صاحب نے سخت بے چینی اور تکلیف میں گزارا۔ مگر تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں اور تمام وظائف بھی پورے کیے پھر عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے پوچھا کے میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے۔ مولانا بدر الدین اسحاق نے جواب دیا حضور عشاء کی نماز وتر کے ساتھ ادا کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد آپ پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا کہ میں دوسری مرتبہ نماز ادا کرو ں گا خدا جانے پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ مولانا بدر الدین کہتے ہیں کہ اس رات آپ نے تین مرتبہ نماز عشاء ادا کی۔ پھر آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ وضو کیا دو گانہ ادا فرمایا پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے میں ہی آہستہ آواز سے یاحیی یا قیوم پڑھتے آپ واصل حق الحبیب ہو گئے ۔
اقوال زریں بابا فرید ترميم
انسانوں میں رذیل ترین وہ ہے جوکھانے پینے اورپہننے میں مشغول رہے۔
جوسچائی جھوٹ کے مشابہہ ہواسے اختیارمت کرو۔
نفس کواپنے مرتبہ کے لیے خوارنہ کرو۔
اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتے ہوتوبادشاہوں کی اولادسے دوررہو۔
جب کوئی مومن بیمارہوتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ یہ بیماری اس کے لیے رحمت ہے۔ جوگناہوں سے اس کوپاک کرتی ہے۔
دوریش فاقے سے مرجاتے ہیں مگرلذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے۔
جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہے وہ دل زندہ ہے اورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔
وہ شے بیچنے کی کوشش نہ کروجسے لوگ خریدنے کی خواہش نہ کریں۔
اچھائی کرنے کے لیے ہمیشہ کسی بہانے کی تلاش میں رہو۔
دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے سوچوکہ تم اپنی ذات سے اچھائی کر رہے ہو۔
ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔
وہ لوگ جودوسروں کے سہارے جینے کاارادہ رکھتے ہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتے ہیں۔
اطمینان قلب چاہتے ہوتوحسدسے دوررہو۔
حوالہ جات
نام و لقب
^ ا ب بابا فرید گنج شکر کیوں کہلائے۔ عاصِمہ شوکت
سیرالعارفین،مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی،طبع 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی
پنجابی، رنگ پنجاب دے، قمر حُسنین فریدی بابا فرید الدین گنج شکر
Mashaallha
ReplyDelete